حضور تاج الشریعہ امت مسلمہ کے ایک عظیم محسن:مولانا عرفان قادری
-------------تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام چمن گنج و بابوپوروہ میں عرس تاج الشریعہ منعقد ------------

کانپور 28 جون:حضور علیہ السلام پر نبوت کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد سے لے کر آج تک بے شمار اولیاء اور علماء اس خاکدان گیتی پر تشریف لائے جنہوں نے دین اسلام کی ترویج واشاعت کے لئے اپنی لیل ونہار کی پرواہ کیے بغیر اپنا سارا وقت اسی میں صرف کیا، دین حنیف کا ڈنکہ ہر چہار جانب بجانے کے لیے ان نفوسان قدسیہ نے ہر ممکن کوشش کی اپنے اس فریضہ کے سمجھوتے کے لیے وقت کے فرمارواوں کو بھی خاطر میں نہیں لائے اور ان کو بھی قبول اسلام کی دعوت وتلقین کی، اسی فہرست میں ایک قابل ذکر اور ناقابل فراموش نام وارث علوم اعلی حضرت ،جانشین حضور مفتئی اعظم ہند نبیرہ حضور حجتہ الاسلام، جگر گوشہ مفسر اعظم ہند، فخر ازہر وہند، تاج الشریعہ حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی اختر رضا خان قادری ازہری علیہ الرحمتہ الجنان کا بھی ہے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تبلیغ کی خدمت انجام دیں بلکہ دنیا کے کروڑوں لوگوں کو سلسلہ قادریہ میں داخل بھی کیا، جن کا قلم اہل سنت والجماعت کے لیے تو ایک مفید آلہ ہے لیکن یہی قلم دیابنہ و دیگر اقوام باطلہ کے لیے ایک خنجر کی حیثیت رکھتا ہے ان خیالات کا اظہار تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے زیر اہتمام بابوپوروہ میں ہوئے عرس تاج الشریعہ میں مولانا محمد عرفان قادری نے کیا مولانا صلاح الدین ازہری کی سرپرستی و تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری کی صدارت میں ہوئے جلسہ کو مولانا نے مزید فرمایا کہ عرس تاج الشریعہ( دوم ) کے موقع پر ہم اسی عاشق صادق، مرشد برحق، پیر کامل، عالم باعمل، فقید المثال فقیہ کی زندگی پر قدرے خامہ فرسائی کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

      تاج الشریعہ جانشین حضور مفتئ اعظم علامہ الحاج الشاہ مفتی اختر رضا خان ازہری قادری بن مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بن حجتہ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان بن حسان الہند اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی 25 فروری 1942 ء محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔

       جانشین حضور مفتئ اعظم کی عمر شریف جب چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو والد ماجد مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بریلوی نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی اور اس میں دارالعلوم منظر اسلام کے تمام طلبہ کو دعوت دی حضور مفتئ اعظم آل الرحمان ابوالبرکات محی الدین مصطفے رضا خان نوری بریلوی قدس سرہ نے رسم بسم اللہ ادا کرائی اور محمد نام پر عقیقہ ہوا پکارنے کا نام " محمد اسماعیل رضا" اور عرف "محمد اختر رضا " تجویز فرمایا حضور مفتی اعظم کی صاحبزادی یعنی جانشین مفتئی اعظم کی والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا چونکہ نانا جان کا صحیح جانشین آپ ہی کو مستقبل میں بننا تھا اور ساری توقعات آپ ہی سے وابستہ تھی اسی لیے نانا جان حضور مفتئ اعظم قدس سرہ کی دعائیں بھی آپ کے حق میں نکلتی رہیں ۔

  جانشین حضور مفتئ اعظم نے گھر پر والد ماجدہ سے قرآن کریم کا ناظرہ کیا اسی دوران والد ماجد مولانا ابراہیم رضا خان جیلانی میاں قدس سرہ سے اردو کی کتابیں پڑھیں گھر پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد بزرگوار نے دارالعلوم منظر اسلام میں داخلہ کرا دیا نحومیر ، میزان ومنشعب وغیرہ سے ہدایہ آخرین تک کہ کتابیں دارالعلوم منظر اسلام کے کہنہ مشق اساتذہ کرام سے پڑھیں تاج الشریعہ نے فارسی کی ابتدائی کتابیں پہلی فارسی، دوسری فارسی، گلستاں اور بوستاں منظر اسلام کے استاذ حافظ انعام اللہ خاں تسنیم حامدی بریلوی سے پڑھیں 1952ء میں ایف آر اسلامیہ انٹر کالج میں داخلہ لیا جہاں پر ہندی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی مفسر اعظم ہند قدس سرہ کے مرید خاص جناب نثار احمد حامدی سلطان پوری مرحوم کی کوشش سے جامعہ ازہر (مصر) سے عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے کے لیے فضیلتہ الشیخ مولانا عبد التواب مصری کی خدمات حاصل کی گئیں شیخ صاحب دارالعلوم منظر اسلام میں درس وتدریس دیا کرتے تھے ان کے خاص تلامذہ میں آپ کا شمار ہوتا تھا آپ کا دوران طالب علمی یہ معمول تھا کہ علی الصبح عربی اخبارات استاذ کو سناتے اور اردو ہندی اخبارات کی خبروں واطلاعات کو عربی زبان میں ترجمہ کرکے سناتے آپ کو شیخ صاحب بڑی توجہ وانہماک سے پڑھاتے آپ کی ذہانت وفطانت کو دیکھتے ہوئے جامعہ ازہر میں داخلہ کا مشورہ مولانا ابراہیم رضا جیلانی کو دیا تو وہ تیار ہوگئے ، تاج الشریعہ 1963ء میں جامعہ ازہر قاہرہ تشریف لے گئے وہاں آپ نے کلیہ اصول الدین ( ایم اے) میں داخلہ لیا مسلسل تین سال تک جامعہ مصر میں رہ کر جامعہ کے فن تفسیر کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا وہاں پر تین سال تک مسلسل حصول علم میں مشغول رہے دوسرے سال کے سالانہ امتحان میں اللہ تعالی نے اپنے فضل عمیم سے پورے جامعہ ازہر قاہرہ میں امتحان میں اعلی کامیابی عطا فرمائی تاج الشریعہ کی 1966ء میں جامعہ ازہر قاہرہ سے فراغت ہوئی تو اول پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے جامعہ کی مقتدر شخصیات نے آپ کو بطور انعام جامعہ ازہر ایوارڈ پیش کیا اور ساتھ ہی " سند الفراغت والتحصیل علوم الاسلامیہ" سے بھی نوازے گئے اس سے قبل جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے حافظ تنویر نظامی نے کیا حافظ فضیل احمد رضوی،حافظ محمد زبیر قادری نے بارگاہ رسالت مآب میں نعت و منقبد کا نذرانہ پیش کیا جلسہ صلاة و سلام و دعا کے ساتھ اختتام پزید ہوا بعدہُ جلسہ لنگر تقسیم کیا گیا شرکاء میں مولانا محمد سالم مصباحی،مولانا محمد حسان قادری،حافظ محمد توقیر،حافظ مشیر،نظامی بھائی،سید شعبان وغیرہ لوگ موجود تھے اسی طرح تنظیم کے زیر اہتمام چمن گنج میں عرس تاج الشریعہ منعقد ہوا جسکی صدارت تنظیم کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری نے کیا تنظیم کے سکریٹری قاری محمد عادل رضا ازہری نے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ

    حضرت تاج الشریعہ کے والد ماجد مفسر اعظم ہند رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی نشو ونما بڑے ناز ونعم اور خصوصی اہتمام کے ساتھ کی دوران طالب علمی آپ کو تقریر ووعظ کی تربیت دیتے تھے آپ کے والد ماجد نے آپ کی اردو عبارت خوانی کی بہتری کے لیے اور عقائد اہل سنت والجماعت کی جانکاری حاصل کرنے اور تقریر وخطابت کرنے میں تکلف وجھجھک ختم کرنے کے لیے آپ کو حکم دیا کہ روزانہ طلبائے منظر اسلام کو سیف الجبار سنایا کروگے آپ نے عرض کیا کہ ابا حضور ابھی میری اردو بھی اچھی نہیں ہے فرمایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا یہ کام تمہارے ذمہ کیا جاتا ہے ۔

آپ کے اساتذہ میں قابل ذکر اساتذہ کرام کے نام یہ ہیں 

1- حضور مفتئ اعظم مولانا الشاہ مصطفے رضا نوری قدس سرہ

2- بحرالعلوم حضرت مولانا مفتی سید محمد افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ

3 - مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی علیہ الرحمہ

4- فضیلتہ الشیخ مولانا علامہ محمد سماحی شیخ الحدیث والتفسیر جامعہ ازہر 

5- حضرت مولانا عبد الغفار استاذ الحدیث جامعہ ازہر قاہرہ 

6- استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خان رضوی اعظمی

7- فضیلتہ الشیخ مولانا عبد التواب مصری استاذ منظر اسلام بریلی

8- مولانا حافظ انعام اللہ خاں تسنیم حامدی بریلوی 

   جانشین حضور مفتئ اعظم ہند کو کئی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا اردو، عربی ، فارسی میں جہاں بہترین ادیب نظر آتے ہیں وہیں انگریزی ادب میں بھی آپ یکتائے روزگار تھے آپ  نے اسلامیہ انٹر کالج سے معمولی انگریزی کی تعلیم حاصل کی اس کے باوجود خدا داد ذہانت وفطانت کا یہ عالم تھا کہ ساوتھ افریقہ، انگلینڈ، ماریشس، کناڈا،  زمبابوے، جرمن، فرانس ہالینڈ وغیرہ ممالک کی بین الاقوامی کانفرنس میں ہی خطاب فرماتے اس کے علاوہ آپ انگریزی زبان میں بیرونی ممالک کے فتاوے بھی ہل فرماتے تھے ۔

  علم وہنر، فکر وفن، زہد وتقوی، ولایت وکرامت، ادب وثقافت کا یہ درخشندہ ستارہ 6 ذی قعدہ 1439ھ مطابق 20 جولائی 2018 بروز اتوار بوقت مغرب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ، جانشین حضور تاج الشریعہ آپ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا عسجد رضا جان مد ظلہ العالی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور کروڑوں محبین، مخلصین،مریدین ومعتقدین کی موجودگی میں ازہری گیسٹ ہاوس میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا ۔

آج ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کریں ان کے طرز عمل کو نمونہ عمل بنائیں اور کثرت علم کے ساتھ اپنے اندر زہد وتقوی اور طہارت پیدا کریں، ہمارا اٹھنا بیٹھنا جلنا پھرنا سب کچھ شریعت مطہرہ کے مطابق ہو ہمیں اپنے پیر ومرشد کی زندگی سے یہی تعلیم ملتی ہے کہ    

 

زندگی یہ نہیں ہے کسی کے لیے 

زندگی ہے نبی کی نبی کے لیے 

ناسمجھ مرتے ہیں زندگی کے لیے

جینا مرنا ہے سب کچھ نبی کے لیے 

اختر قادری خلد میں چل دیا 

خلدواں ہے ہر ایک قادری کے لیے اس سے قبل جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے حافظ نبی حسن نے کیا حافظ مونس چشتی،حافظ محمد صادق قادری،حافظ ندیم ازہری نے نعت پاک پیش کی جلسہ صلاة و سلام و دعا کے ساتھ اختتام پزید ہوا بعدہُ جلسہ لنگر کا اہتمام کیا گیا شرکاء میں حافظ محمد عرفان،حافظ حمزہ،حافظ عاقب،محمد رفیع،حیات ظفر ہاشمی،محمد وقیع وغیرہ لوگ موجود تھے!