14 رمضان المبارک کو تاریخ وصال پر تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت نے پیش کی خراج عقیدت
کانپور 8 مئی:حضرت شیخ ابو یزید تیفور بن عیسیٰ بسطامی رضی اللہ عنہ جو معرفت کا آسمان اور صحبت الٰہی کی کشتی ہیں ان کا شمار اکابر مشائخ میں ہوتا ہے آپکا حال بلند اور شان بڑی اونچی ہے آپکا اصل نام با یزید نہیں بلکہ تیفور ہے آپکا لقب سید الطائفہ ہے ایران کے ایک شہر بسطام میں آپکی ولادت 804 عیسوی کو ہوئی بڑے ہی عزت دار اور متقی گھرانے سے تعلق رکھنے والے عامل شریعت صاحب طریقت اور امام تصوف ہیں آپکے فضائل کو بیان کرتے ہوئے حضرت خواجہ جنید بغدادی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ صوفیا کے نزدیک با یزید کو وہی حیثیت حاصل ہے جو فرشتوں کے درمیان حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حاصل ہے تمام اولیاء کی جہاں پر انتہا ہوتی ہے وہاں سے آپکے ابتداء کا عالم یہ ہے تو انتہا کون جان سکتا ہے ان خیالات کا اظہار تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کے صدر حافظ و قاری سید محمد فیصل جعفری نے کیا انھوں نے مزید فرمایا کہ آپ کے والد دادا مجوسی تھے بعد میں داخل اسلام ہوئے آپ سے پہلے تصوف کے حقائق پر کسی کو اتنا عبور حاصل نہ تھی آپ نے ہر حال میں علم سے محبت کی اور شریعت کا احترام کیا ساری زندگی کوئی ایسا کام نہ کیا جو خلاف شرع ہو ابتداء میں آپکا زیادہ وقت مجاہدہ و ریاضت میں گزرتا تھا اور اس سلسلہ میں خود آپ نے یہ ارشاد فرمایا میں تین سال مجاہدہ کیا اور اس دوران علم اور اسکی پیروی کرنے سے زیادہ مشکل کوئی چیز محسوس نہ کی اور اسی علم کے سبب آپکی انکساری کا حال یہ ہو چکا تھا کہ ایک موقع پر ایک شخص آپ سے ملنے آیا جو آپکو جانتا نہیں تھا آپ سے ہی پوچھا کہ حضرت پیر خواجہ با یزید کہاں ملیں گے؟آپ نے فرمایا میں بھی 30 سال سے ایسے شخص کو تلاش رہا ہوں جو حضرت،پیر اور خواجہ ایک ساتھ ہو وہ شخص آپ سے ہٹکر دوسرے کے پاس پہونچا اور یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا جس سے تم ابھی پوچھ کر آئے ہو وہی حضرت پیر خواجہ بایزید ہیں وہ شخص پھر آ پ کے پاس آیا اور بولا فلاں کہتا ہے کہ آپ ہی با یزید ہو لیکن آپ انکار کرتے ہو؟ تو آپ نے فرمایا تونے سچ کہا میں با یزید ہوں لیکن اتنا بھی بلند نہیں کہ حضرت پیر اور خواجہ جیسی عظیم صفتیں مجھ میں داخل ہو جائیں آپکا یہ فرمانا بطور انکساری ہے جبکہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی پیر یا عالم کے حق میں اس طرح کے القاب نہ استعمال کئے جائیں تو وہ ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں اور اپنے ناموں کے آگے ایسے ایسے القاب کے ڈھیر لگا دیتے ہیں جس کے وہ اہل تک نہیں ہوتے (الا ماشاء اللہ) لھٰذا ہمارے بڑوں کو اس سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے تنظیم کے ناظم نشرو اشاعت مولانا محمد حسان قادری نے خراج پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک موقع پر حضرت با یزید اپنے کچھ مریدوں کے ساتھ سفر فرما رہے تھے کہ راہ میں ایک دریا پڑا اور آپ نے فرمایا کہ ذرا رکو تاکہ میں اپنا کرتا دھو لوں مریدین نے عرض کی حضور ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ کام کریں تو ہمارے لئے شرم کی بات ہے آپ نے فرمایا نہیں میرا کام ہے مجھے ہی کرنے دو آپ نے اپنا کرتا دھویا اور ایک مرید کے بہت اصرار پر اسے سکھانے کو دے دیا اس مرید نے وہاں لگی ایک رسی پر آپکا کرتا ٹانگ دیا تو آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے اس رسی کو باندھا ہے کیا تم نے اس سے اجازت لی؟عرض کی نہیں حضور فرمایا وہاں سے ہٹاکر کہیں اور ڈالو تو مرید نے زمین پر اگی ہوئی گھاس پر کرتے کو پھیلا دیا آپ نے دیکھکر فرمایا کہ تم نے اسے گھاس پر پھیلا دیا اور اگر اسی درمیان کوئی چرنے والا جانور آ گیا اور شکن سیر نہ ہو سکا تو اسکا جواب رب کے حضور میں کیا دونگا؟مرید نے پوچھا حضور پھر آپ ہی بتائیں کہ کہاں پھیلاؤں؟ آپ نے فرمایا کہ کرتا مجھے دو اور وہ کرتا لیکر آپ نے پہن لیا اور فرمایا کہ اس کے سوکھنے کی اس سے اچھی جگہ اور کوئی نہیں آپکی زندگی کا ہر ہر گوشہ خوف خدا کا درس اور محبت رسول کا جام پلاتا تھا آپ جہاں سراپا انکسار ہیں وہیں سراپا کرامت بھی ہیں ساری زندگی دین پاک کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی اور 15 شعبان یا 14 رمضان المبارک 249 ہجری کو اس دنیا سے رحلت فرما گئے آپکا مزار مبارک بستام (ایران) میں ہے جہاں سے آج بھی آپ کے چاہنے والوں کیلئے فیض کی ہوائیں چل کر انکو شرابور کر رہی ہیں اللہ کریم آپکی پاکیزہ تربت پر اپنے خصوصی کرم کی بارش برسائے!